ابھی ٹھہرو
ابھی کچھ کام باقی ہیں
ذرا یہ کام نمٹا لیں تو چلتے ہیں
ابھی تو نا مکمل نظم کا اک آخری مصرعہ کتاب ہجر میں تحریر کرنا ہے
خس و خاشاک غم اسلاف میں تقسیم ہو جائیں تو سر سے بوجھ اترے
قرض کا جامہ پہن کر اک نئے رستے پہ جانا کب مناسب ہے
ابھی ٹھہرو
ابھی ہم کو جزیرے میں ہوا کے سبز جھونکوں سے شجر کی بات کرنا ہے
سویروں کی امامت کرنے والی ضو نگاہوں میں پرونے تک ٹھہر جاؤ
اندھیروں میں کسی لو کے بنا لمبا سفر آغاز کرنا کب مناسب ہے
ابھی ٹھہرو
ہجوم دلبراں آداب گریہ سے نہیں واقف
در و دیوار حسرت میں ذرا سی بھیڑ لگ جائے تو چلتے ہیں
خبر بھیجو
کہ یوں چپ چاپ میت کی طرح گھر سے نکلنا کب مناسب ہے
ذرا ٹھہرو
ابھی کچھ کام باقی ہیں
ذرا یہ کام نمٹا لیں تو چلتے ہیں
نظم
ابھی کچھ کام باقی ہیں
نجیب احمد