لو رات کی بات تمام ہوئی
اب دن کی باتیں کرتے ہیں
سب خواب تماشے دھول ہوئے
اور جگنو تارے دیپ سبھی
پرکاش کے پھیلے ساگر میں
چمکاٹ دکھانا بھول گئے
اک چاند کہ شب بھر ساتھ رہا
وہ چاند بھی گر کر ٹوٹ گیا
لو رات کی بات تمام ہوئی
اب دن کی باتیں کرتے ہیں
پھولوں کے سوجے چہروں پر
شبنم کی چڑیاں اتری تھیں
ان چڑیوں پر ہم سورج کے
تیروں کا نشانہ تکتے ہیں
ادھ میچی اپنی پلکوں سے
ہم گلیوں اور بازاروں میں
سونے کے ریزے چنتے ہیں
اور داغوں دھبوں شکنوں سے
دیواریں کالی کرتے ہیں
پھر اجلے کاغذ پر لکھی
سب گندی خبریں پڑھتے ہیں
لو رات کی بات تمام ہوئی
اب دن کی باتیں کرتے ہیں
نظم
اب دن کی باتیں کرتے ہیں
وزیر آغا