EN हिंदी
آس | شیح شیری
aas

نظم

آس

شاہد اختر

;

شب کے آوارہ گرد شہزادے
جا چھپے اپنی خواب گاہوں میں

پڑ گئے ہیں گلابی ڈورے سے
رات کی شبنمی نگاہوں میں

سیم تن اپسراؤں کے جھرمٹ
محو پرواز ہیں فضاؤں میں

رات رانی کی دل نشیں خوشبو
گھل گئی منچلی ہواؤں میں

جھیل کی بے قرار جل پریاں
آ کے ساحل کو چوم جاتی ہیں

دم بہ دم میری ڈوبتی نظریں
تیری راہوں پہ گھوم جاتی ہیں

منتظر ہے اداس پگڈنڈی
ایک سنگیت ریز آہٹ کی

راہ تکتی ہیں ادھ کھلی کلیاں
تیری معصوم مسکراہٹ کی

جانے کتنے ہی رت جگے بیتے
آرزوؤں کی نرم جانوں پر

سو گئے تھک کے درد کے مارے
آس کی کھردری چٹانوں پر