دل کے دروازے پر کس نے دستک دی ہے؟
کوئی نہیں ہے!
اندر باہر اتنی گہری اتنی بوجھل
خاموشی ہے
جیسے فضا کا دم گھٹ جائے
لیکن دیکھو دور کہیں سے
گورے ننگے اور کنوارے دو پیروں میں
اجلی اجلی چاندی کی زنجیریں پہنے
زینہ چڑھتی آئی اچانک
چھم چھم کرتی ایک پرانی یاد کہ جس سے
سہم گئے سوچوں کے سائے
جیسے قبرستان سے اٹھ کر
روح کسی کی آئے
اور پھر آنکھ جھپکتے کھو جائے!
نظم
آنکھ مچولی
پریم واربرٹنی