EN हिंदी
آمد | شیح شیری
aamad

نظم

آمد

وزیر آغا

;

کبھی خشک موسم میں پروا جو چلتی
تو بنجر پہاڑوں گھنے گرد آلود شہروں سے کترا کے

ہم تک پہنچتی
ہمیں تند یادوں کے گرداب میں

ڈوبتے اور ابھرتے ہوئے دیکھ کر ہم سے کہتی
میں ان سب کے جسموں سے مس ہو کے آئی ہوں

ان کے پسینے کی خوشبو کو
اپنے لبادے میں بھر کر

ہتھیلی پہ رکھ کر میں لائی ہوں
کبھی سرخ سورج نکلتا

تو ہم اس سے کہتے
تمہاری دہکتی ہوئی آنکھ کا راز کیا ہے

وہ کہتا
میں ان سب کی آنکھوں کے غرفوں سے

یہ ساری اجلی تمازت چراتا رہا ہوں
میں دریوزہ گر ان چراغوں سے خود کو جلاتا رہا ہوں

انہیں ہم نے ڈھونڈا
کبھی سبز شبنم کے چھینٹوں میں تاروں کی روتی ہوئی انجمن میں

کبھی صبح کی قتل گاہ شب کے گھائل بدن میں
انہیں ہم نے آواز دی کو بہ کو

غم میں ڈوبی ہوئی بستیوں سے اٹے خاکدان وطن میں
مگر وہ نہیں تھے کہیں بھی نہیں تھے

کہیں ان کے قدموں کی ہلکی سی آواز تک بھی نہیں تھی
پھر اک روز دھرتی کا موسم جو بدلا

تو بادل نے شانوں سے ہم کو ہلا کر جگایا
کہا ان کے آنے کا پیغام آیا

چہکتے پرندوں نے شاخوں سے اڑ کر
ہواؤں میں اک دائرہ سا بنایا

کہا ان کے آنے کا پیغام آیا
دھنک سات رنگوں میں لپٹی ہوئی

اک کماں بن کے ظاہر ہوئی
ہم سے کہنے لگی اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے انہیں

تیز قدموں سے آتے ہوئے
شام ہنسنے لگی

اس کی آنکھوں میں خوشیوں کے آنسو تھے
عارض پہ شبنم

نگینوں کی صورت چمکنے لگی تھی