سورج سے سائے کی توقع بادل سے سنہری دھوپ کی
کانٹوں سے مہکتے پھول کی خوشبو صحرا سے ہریالی کی
کیسے بھولے آپ ہیں صاحب کیسی توقع رکھتے ہیں
کیچڑ میں جب آپ چلیں گے پاؤں تو گندے ہوں گے ہی
جھوٹوں کی صحبت میں رہ کر سچ کیسے کہہ پائیں گے
مرے ہوئے انساں کے لحم سے کیوں رغبت رکھتے ہیں آپ
اب بھی تھوڑا وقت بہت ہے قلب ماہیت کر لیں
اہل ہوس کے سامنے جھک کے
بونوں کی ثنا میں بے خود ہیں
اپنے جی کا سودا کر کے لوگوں کی ملامت سہتے ہیں
بہت ہوا بس بند کریں اب اپنی ضمیر فروشی کو
دنیا والے سوچتے ہوں گے عالم کیوں ایسے ہیں اب
لیکن ان کو کون بتائے
آپ نے زر اور جسم کی خاطر
جاہل کو توقیر ہے بخشی عالم کو بن باس دیا ہے
اور عالم تجھ کذب صفت کو محو حیرت تاک رہا ہے
علم جو شہر علم کے باہر اب بھی گریہ کرتا ہے
اپنی اور تیری حالت پر غم کے آنسو روتا ہے
کاش کہ ہو توفیق ذرا سی
تھوڑا پشیماں ہو لیں آپ
توبہ کی منزل سے پہلے
اپنی صورت دیکھیں آپ
نظم
عالموں کو بن باس دینے والے
ابو بکر عباد