مجھے معلوم تھا تم رستہ بدلو گے
تبھی آنکھوں میں خوابوں کو ذرا سی بھی جگہ نہ دی
مگر یہ دل
مگر یہ دل بہت کمبخت ہے سنتا نہیں میری
سو اب جو تم نے اپنی راہ بدلی ہے
تو اب معصوم بن کے روتا دھوتا ہے
مجھے کہتا ہے پھر آغوش میں لے لو
مجھے سینے میں پھر رکھ لو
میں اب ہو بات مانوں گا
مگر وہ کیا ہے ناں اس پر تمہارا نام کندہ ہے
تمہارا نام اب وحشت سے بڑھ کر کچھ نہیں دیتا
اسی کی چیز ہوتی ہے کہ جس کا نام لکھا ہو
تمہاری ساری چیزیں تو تمہیں لوٹا چکی ہوں میں
سنو یہ دل بھی لے جاؤ
اور اپنی چیزیں اب سنبھال کر رکھنا
دوبارہ سے تمہارے نام کا کچھ بھی
کبھی بھی اور کہیں سے بھی
کسی طرح بھی میرے پاس نہ آئے
میں سید ہوں
میں جو اک بار دے دوں پھر اسے واپس نہیں لیتی
نظم
آخری تنبیہ
عروج زہرا زیدی