نہ جانے
سرگوشیوں میں کتنی کہانیاں ان کہی ہیں اب تک
برہنہ دیوار پر ٹنگے پر کشش کلنڈر میں
دائرے کا نشان
عمر گریز پا کو دوام کے خواب دے گیا ہے
جس میں سلگتے سیارے
گیسوؤں کے گھنے خنک سائے ڈھونڈتے ہیں
گلاب سانسوں سے
جیسے
شادابیوں کی تخلیق ہو رہی ہے
وہ جھک کے پھولوں میں اپنے بھیگے بدن کی خوشبو کو بانٹتی ہے
چمن سے جاتی بہار
اک ٹوکری میں محفوظ ہو گئی ہے

نظم
آخری قافلہ
شاہین غازی پوری