چاند کے سائے میں لو دیتا بدن
ٹمٹماتے ہونٹ
میٹھی روشنی
گھولنا پیالوں میں امرت گھولنا
کھولنا الزام سارے کھولنا جو بدن ملتے سمے کھلتے نہیں
شمع جلنے
دوستی پر سچ اترنے کی گھڑی آنے کو ہے
دل میں جتنا کھوٹ تھا سب پڑھ لیا
اس آنکھ نے
آنکھ نے اپنی قسم توڑی نہیں
دستخط میرے بھی ہوتے اختتام سطر پر
اس نے کاغذ پر جگہ چھوڑی نہیں
آئنہ روشن خط زنگار سے
درد رسوا سے رہائی کی سزا تھوڑی نہیں

نظم
آئنہ روشن خط زنگار سے
اختر حسین جعفری