EN हिंदी
آئینہ دیکھتے ہو | شیح شیری
aaina dekhte ho

نظم

آئینہ دیکھتے ہو

فہیم شناس کاظمی

;

اس کے آداب تو پہلے سیکھو
خاک میں خون رگ جاں تو

ملا کر دیکھو
آنکھ دریا تو بنا کر دیکھو

شام کی ٹھنڈی ہوا راستوں کو دے گی بوسے
خواب آنکھوں میں سمندر کا اتر آئے گا

رنگ میں رنگ ملیں گے
گیت پھر چھیڑیں گے دریا کے کنارے اشجار

آئینہ دیکھتے ہو
سطح دریا پہ جہاں کائی بنے آئینہ

چاندنی جھیل کی لہروں پہ بنے آئینہ
اشک آنکھوں سے گرے اور بنے آئینہ

ساربانوں کے قدم چومتے جو دشت بنے آئینہ
آتش غم سے جلے دل تو بنے آئینہ

آنکھ سے صاف کرو گرد
نظر تیز کرو

خاک میں خواب ملاؤ
اسے مہمیز کرو