اپنے ادھورے وجود کے ساتھ
میں نے اپنی آدھی قبر ماں کی کوکھ میں بنائی
اور آدھی باپ کے دل میں
میں اپنی دونوں قبروں میں
تھوڑا تھوڑا جی رہا ہوں
تھوڑا تھوڑا مر رہا ہوں
مسیحا نے اپنے نسخے میں
میری تحلیل کی تجویز لکھی ہے
بابا نے میرے دوبارہ جنم کا مشورہ مانگا
اور ماں نے میرے بے نام کتبے کو آنسوؤں سے صاف کیا
تب
میرے ادھورے اور پورے جنم کا فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا گیا
دو قبروں میں بنے وجود کا تخمینہ لگاتے ہوئے
سوچتا ہوں
کیا کروں؟
مرنے کے لیے جی اٹھوں؟
یا جینے کے لیے ملتوی ہو جاؤں؟
پیارے رشتو!
میں ایک طرف دعاؤں کے کفن میں لپٹا پڑا ہوں
اور دوسری طرف
میرے سرہانے سورج مکھی کا پھول دھرا ہے
نظم
آدھی موت کا جنم
انجم سلیمی