مدتوں میں اک اندھے کنویں میں اسیر
سر پٹکتا رہا گڑگڑاتا رہا
روشنی چاہیئے، چاندنی چاہیئے، زندگی چاہیئے
روشنی پیار کی، چاندنی یار کی، زندگی دار کی
اپنی آواز سنتا رہا رات دن
دھیرے دھیرے یقیں دل کو آتا رہا
سونے سنسار میں
بے وفا یار میں
دامن دار میں
روشنی بھی نہیں
چاندنی بھی نہیں
زندگی بھی نہیں
زندگی ایک رات
واہمہ کائنات
آدمی بے بساط
لوگ کوتاہ قد
شہر شہر حسد
گاؤں ان سے بھی بد
ان اندھیروں نے جب پیس ڈالا مجھے
پھر اچانک کنویں نے اچھالا مجھے
اپنے سینے سے باہر نکالا مجھے
سیکڑوں مصر تھے سامنے
سیکڑوں اس کے بازار تھے
ایک بوڑھی زلیخا نہیں
جانے کتنے خریدار تھے
بڑھتا جاتا تھا یوسف کا مول
لوگ بکنے کو تیار تھے
کھل گئے مہ جبینوں کے سر
ریشمی چادریں ہٹ گئیں
پلکیں جھپکیں نہ نظریں جھکیں
مرمریں انگلیاں کٹ گئیں
ہاتھ دامن تک آیا کوئی
دھجیاں دور تک بٹ گئیں
میں نے ڈر کے لگا دی کنویں میں چھلانگ
سر پٹکنے لگا پھر اسی کرب سے
پھر اسی درد سے گڑگڑانے لگا
روشنی چاہیئے چاندنی چاہیئے زندگی چاہیئے
نظم
عادت
کیفی اعظمی