یہ دعویٰ ہے
جہاں میں چند لوگوں کا
کہ ہم نے زندگی کو جیت رکھا ہے
ہمارے پاس یعنی ایٹمی ہتھیار ہیں اتنے
ہمارا دوست ننھا ایلین بھی ہے
کروڑوں سال کی تاریخ کو اب جانتے ہیں ہم
کہ ہم نے موت پر اب فتح پا لی ہے
پلینٹ مارس پر پانی بھی ڈھونڈا ہے
یہ سب کہتے ہوئے اکثر
وہ شاید بھول جاتے ہیں
ابھی اک چیز باقی ہے کہ جو ان میپڈ ہے اب تک
جسے ہم ذہن کہتے ہیں
ہمارے سائنس دانوں نے بھی مانا ہے
کہ اب تک کچھ ہی حصہ ذہن کا
ہم جان پائے ہیں
بہت کچھ ہے جسے اب بھی ہمیں ڈیکوڈ کرنا ہے
میں اکثر سوچتا ہوں
سوچ کر حیران ہوتا ہوں
فقط کچھ گرام کے اس ذہن سے یہ ساری ہلچل ہے
ستارے چاند سورج تتلیاں جگنو بھری راتیں
یہ سارہ آرٹ اور اس آرٹ پر تنقید جو کچھ ہے
کتابوں سے بھری ہر لائبریری
اور انسانوں کے دل میں بڑھ رہی دوری
کہیں ناراضگی آنکھوں میں بھر کر خود میں ہی گھٹنا
کہیں پر بھوک بیماری یا پالیٹکس کی پاور
یہ ایف بی اور ٹوئیٹر پر جو جاری ہیں سبھی بحثیں
اور انسٹاگرام پر ہر پل کی تصویریں
یہ دنیا بھر کی فلمیں اور فیسٹیول
یہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے پھولوں سے نازک لوگ
مرے ہونٹھوں سے ایک اک نظم کا یوں ٹوٹتے رہنا
فقط کچھ گرام کے اس ذہن سے ہی ساری ہلچل ہے
نگاہیں موڑ کر یہ دیکھنا میرا
تمہارا مسکرانا بھی
فلک کو دیکھ کر یوں روٹھ جانا بھی
کہ اپنی زندگی میں روشنی کے نام پر
کچھ بھی نہیں ہے
اور یہ کیا کھیل ہے
جس میں محض ماتیں ہی ماتیں ہیں
محض گھاتیں ہی گھاتیں ہیں
مگر یہ دکھ جو ہم کو رات دن محسوس ہوتا ہے
ہمارے ذہن سے اٹھتا دھواں ہے بس
اگر ہم غور سے دیکھیں تو ڈھیروں راز کھلتے ہیں
کہ میں تم سے اگر کہتا ہوں
تم سے عشق کرتا ہوں
تو یہ سن کر تمہاری سانس کی لے تیز چلتی ہے
یہی انفاس کا پردہ
جو اٹھتا ہے
جو گرتا ہے
اسی انفاس کے پردہ کے پیچھے سے
ہمارا ذہن سب کچھ دیکھتا ہے
سوچتا ہے بات کرتا ہے
صدی سے بند دروازوں کے پیچھے سے
کوئی آواز آتی ہے
ہمیں لگتا ہے یہ سب کچھ ہمیں تو کر رہے ہیں
پر حقیقت اور ہی کچھ ہے
ہمیں معلوم کرنا ہے
کہ جلتے ذہن کے جنگل کا راجہ کون ہے آخر
ہمیں معلوم کرنا ہے
ہمارے ذہن میں چھپ کر اشارہ کون کرتا ہے
یہ کس کے حکم پر ہم روز مرتے اور جیتے ہیں
یہ کس کے واسطے ہم زندگی کا زہر پیتے ہیں
نظم
ذہن
تری پراری