EN हिंदी
تحفۂ درویش | شیح شیری
tohfa-e-darwesh

نظم

تحفۂ درویش

ز خ ش

;

بحر غم میں ہے سخت طغیانی
سر سے اوپر گزر گیا پانی

کب تک اے نزہت برشتہ جگر
شور یا رب سے عرش جنبانی

رونے دھونے سے جان کھونے سے
کہیں بنتے ہیں کام دیوانی

درد دل درد آفریں کو سنا
کر گزر جی میں ہے جو کچھ ٹھانی

دشت وحدت ہے دشت وحدت ہے
دیکھ آہستہ کر فرس رانی

بے خبر پہلے نقش کر دل پر
عظمت بارگاہ یزدانی

مایۂ اشک یاں بضاعت مور
ہیچ واں شوکت سلیمانی

پہلے دے صدقہ ماسوا اللہ
پہلے کر جان و دل کی قربانی

صدف فکر سے نکال گہر
تر بہ تر کر عرق سے پیشانی

نزہت بے ضو اسے ہدیہ بدست
ہو قبول جناب سلطانی

ہدیہ کیا ایک سادہ دفتر پر
لکھ کے لائی ہوں لفظ لا ثانی

دیں ہے الفت وطن افغانستاں
عرف مجنوں ہے ہمیشہ حسانی