یہ زمیں یہ آسماں یہ کائنات
ایک لا محدود وسعت ایک بے معنی وجود
آدمی اس ابتری کی روح ہے
آدمی اس مادے کا ذہن ہے
ابتری لا انتہا
مادہ لا انتہا
آدمی محدود ہے
آدمی کا ذہن بھی محدود ہے
روح بھی محدود ہے
یہ زمیں یہ آسماں یہ کائنات
جبر کا اک سلسلہ
کس طرح سمجھوں اسے
کرب ہے اور روح کی تنہائیاں
ذہن کی خاموشیاں
مادے کی چار دیواری میں سر کو پھوڑتا پھرتا ہوں میں
زندگی کے ختم ہو جانے سے پہلے
راز پا سکتا نہیں
اور جب مر جاؤں گا
راز کا اک جزو بن جاؤں گا میں
تب مجھے ڈھونڈے گا کون
کون ڈھونڈے گا مجھے
آہ یہ لاچارگی بے بسی
ایک لا محدود وسعت ایک بے معنی وجود
یہ زمیں یہ آسماں یہ کائنات
نظم
تنہائی
زاہد ڈار