زمین کا وجود میرے انتظار میں تھا
میری صدا کو
روشنی کی شناخت کے لیے سنا گیا
جو ازلی پانیوں سے
فوارے کی طرح پھیل رہی تھی
میں تیز تیز
آبشار کی طرح زمین کے منہ میں گر رہا تھا
زمین کا منہ
گلاب کے پھول کی طرح ہوا میں وا ہو رہا تھا
پہلی بار جب میں آسمان سے گرا تھا
زمین نے میری آواز کو موسیقی کی طرح سنا تھا
زمین کے دل میں درد کا دریا تھا
جس میں میں نے جنم لیا تھا
اب میں اپنے اندر سے اس روشنی کو یاد کرتا ہوں
جو میرے وجود میں غیر معمولی خاموشی کے ساتھ محفوظ ہے
اور اپنی پہلی موجودگی کے ساتھ
میری آنکھوں میں ابھر آتی ہے
لیکن میں اس آواز کو کبھی نہیں پا سکوں گا
جو میرے گھر کا سکون ہے
میں ہر روز اپنے آپ کو چھوڑتا ہوں
ایک زخمی پرندے کی طرح
جو بند ہوا میں آسمان کی طرح اڑتا ہے
اور ایک جلا وطن کی طرح سانس لیتا ہے
نظم
جلا وطن کی واپسی
یٰسین آفاقی