EN हिंदी
پرانے کوٹ | شیح شیری
purane coat

نظم

پرانے کوٹ

شاد عارفی

;

ہاتھی کان گلا ہے جس کا
استر ادھڑا دامن کھسکا

آخر تم کیا دو گے اس کا
اتنے کم سلوائی دے دو

پانچ نہیں تو ڈھائی دے دو
فی سلوٹ نو پائی دے دو

یہ لو گھنڈی کیسے والا
آگے پیچھے گڑبڑ جھالا

جاہل ہے نا ہندی کالا
بڈھا تو کیا سوچ رہا ہے

مونچھوں کو کیوں نوچ رہا ہے
شاید جاڑا کوچ رہا ہے

آ سردی سے پنڈ کٹا لے
کوئی اونی کوٹ چکا لے

اس دن کو بھگوان اٹھا لے
جس دن یہ پہناوا چھوڑوں

جنم کے ساتھی سے منہ موڑوں
ناسمجھوں سے کیا سر پھوڑوں

رسی جس تہذیب کی ڈھیلی
بوتل ہو جس چاک میں گیلی

سب جلتی ہے سوکھی گیلی
یہ جس کی بھی اترن ہوگی

یا بھنگن یا کنچن ہوگی
بیوہ بانجھ گرھستن ہوگی

جرمن عورت کا ہر دامن
جب جھٹکا کھائے کا کندن

بلکیں گے بے گنتی جیون
میری یہ کھدر کی پنڈی

اون سے اونچی روئی کی منڈی
ان کوٹوں کو کالی جھنڈی