EN हिंदी
پشیمانی | شیح شیری
pashemani

نظم

پشیمانی

تصدق حسین خالد

;

موت کا راگ نفیری پہ بجاتی آٹھی
لو جھلستی ہوئی لو

آٹھی
بڑھی

ریت پہ جیسے دھواں اٹھتا ہو
سرسراہٹ سی درختوں میں ہوئی

پتے مرجھا گئے
گرنے لگے

وہ ان کے کھڑکنے کی صدا میرے خدا
لو کے ہم راہ بڑھے

موت کے ناچ کا نکلا تھا جلوس
چونک کر جاگ اٹھے صحن چمن میں طائر

آشیانوں سے جدائی انہیں منظور نہ تھی
سہم کر اٹھے اڑے اڑ کے وہیں آں گرے

ان کی اس آخری فریاد کی غم ناک صدا میرے خدا
اک گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جھکائے ہوئے سر

ہاتھ آنکھوں پہ رکھے
بیٹھی ہے غمگیں اداس مجبور

پہلو میں افسردہ خوشی کو لے
سانس رکنے لگا

خوں جمنے لگا
بے کلی ڈھونڈھتی پھرتی ہے پناہ

رینگتا رینگتا خوف آیا سسکتا ہوا سانپ
بے کلی کانپ اٹھی

خوف جھپٹ کر اٹھا بے کلی نزع میں تھی
مجھ کو بچا میرے خدا

تیرگی کانپی
فضا لرزی

کھلی کرنوں کی راہ
روحیں جو وسعت آفاق میں آوارہ سی تھیں

ڈھونڈھتی پھرتی تھیں منزل اپنی
پھڑپھڑائے ہوئے پر اپنے اٹھیں

اور ہواؤں میں بڑھیں
سامنے جنت گم گشتہ نظر آتی تھی