اپنی تعبیر کے صحرا میں
جلے خوابوں کی
اس راکھ کو تم
راکھ کے ڈھیر ہی کیوں کہتے ہو
بڑھ کے
اس راکھ کے سینے میں اتر کر
ڈھونڈھو
اس کا امکان ہے
تم راکھ کے اس ڈھیر میں بھی
چند چنگاریاں رہ رہ کے دمکتی دیکھو
اور شاید تم کو
پھر سے جینے کا بہانہ مل جائے

نظم
امکان
یعقوب راہی