زلف دیکھی وہ دھواں دھار وہ چہرا دیکھا
سچ بتا دیکھنے والے اسے کیسا دیکھا
رات ساری کسی ٹوٹی ہوئی کشتی میں کٹی
آنکھ بستر پہ کھلی خواب میں دریا دیکھا
زرد گلیوں میں کھلے سبز دریچے جن میں
دھوپ لپٹی رہی اور سائے کو جلتا دیکھا
کالے کمروں میں کٹی ساری جوانی اس کی
جس نے اے صبح محبت ترا رستا دیکھا
سنتے رہتے تھے کہ یوں ہوگا وہ ایسا ہوگا
لیکن اس کو تو کسی اور طرح کا دیکھا
غزل
زلف دیکھی وہ دھواں دھار وہ چہرا دیکھا
احمد مشتاق