زندگی کیا ہے وفا کیا ہے عقیدت کیا ہے
ہم بتاتے ہیں خداؤں کی حقیقت کیا ہے
میں نے پوچھا ہے ستاروں سے سیہ راتوں میں
کون ہے کوئے گنہ راہ طریقت کیا ہے
میں نے حالات کی ہر آگ میں جل کر جانا
راحت قلب ہے کیا اور مصیبت کیا ہے
ٹوک دیتا ہے بھلے کوئی غلط ہو کہ سہی
ناصحا یہ تو بتا فرض نصیحت کیا ہے
چاند سورج کو ستاروں کو پرکھنے والو
تم کو معلوم بھی ہے چشم بصیرت کیا ہے
کتنے انجان ہیں انسان سمجھ بیٹھے ہیں
خوب صورت ہو بشر پھر تو یہ سیرت کیا ہے
کس قدر دور ہریؔ کیش چلے آئے ہو
قدر تھی دیس میں پردیس میں قیمت کیا ہے

غزل
زندگی کیا ہے وفا کیا ہے عقیدت کیا ہے
ہری مہتہ