زندگی کو ایک بحر بیکراں پاتی ہوں میں
ان کے ہاتھوں مٹ کے عمر جاوداں پاتی ہوں میں
خود بخود دل ہو گیا دونوں جہاں سے بے نیاز
اب زمین عشق گویا آسماں پاتی ہوں میں
چھٹ پھٹے سے دل بجھا رہتا ہے تیری یاد میں
چاندنی راتوں میں اشکوں کو رواں پاتی ہوں میں
سیکڑوں سجدے تڑپتے ہیں جبین شوق میں
اے حقیقت تیرا نقش پا کہاں پاتی ہوں میں
اب بھی آنسو بہہ نکلتے ہیں کسی کی یاد میں
عندلیب زار کو جب نوحہ خواں پاتی ہوں میں
اپنا اے تسنیمؔ اس دنیا سے گھبراتا ہے دل
یاں کی ہر شے کو فقط وہم و گماں پاتی ہوں میں

غزل
زندگی کو ایک بحر بیکراں پاتی ہوں میں
جمیلہ خاتون تسنیم