زندگی ختم بھی ہونے پہ کسک باقی ہے
اجڑے گھر میں تری سانسوں کی مہک باقی ہے
میرے ہمدم مجھے بیداد سے محروم نہ کر
دامن روح میں زخموں کی تپک باقی ہے
مجھ کو دو چار گھڑی اور بھی جینے دیجے
سسکیوں کی ابھی زخموں میں سنک باقی ہے
آس کی شمع پگھلنے کو ہے اب تو آ جا
رات باقی ہے ستاروں میں چمک باقی ہے
میں کسی وعدہ فراموش کا آئینہ ہوں
میری آنکھوں میں ابھی اس کی جھلک باقی ہے
دل زخمی لئے بیٹھا ہوں عزیزان کرام
آؤ کچھ اور چھڑک دو جو نمک باقی ہے

غزل
زندگی ختم بھی ہونے پہ کسک باقی ہے
خالد فتح پوری