زندگی حسن سے تعبیر بھی ہو سکتی تھی
چاندنی دشت پہ تحریر بھی ہو سکتی تھی
بے بس جادۂ پر خار پہ لائی مجھ کو
بے بسی پاؤں کی زنجیر بھی ہو سکتی تھی
ایک آواز طلسمات میں ڈوبی آواز
ایسی آواز کہ تصویر بھی ہو سکتی تھی
ایک سایہ پس دیوار بھی لہراتا تھا
سنسنی اتنی ہمہ گیر بھی ہو سکتی تھی
بھاگتے بھاگتے سب رنگ سمیٹے ہم نے
وقت کا پھیر ہے تاخیر بھی ہو سکتی تھی

غزل
زندگی حسن سے تعبیر بھی ہو سکتی تھی
راحل بخاری