زندگی اب رہے خطا کب تک
جرم کی بارہا سزا کب تک
ناخدا ہوں میں اپنی کشتی کا
یہ خداؤں کا سلسلہ کب تک
اپنی پتھرا گئی ہیں آنکھیں بھی
حسن پردہ اٹھائے گا کب تک
کون پکڑے گا بھاگتے سائے
کون دیکھے گا راستہ کب تک
غالباً اور شاہراہیں ہیں
ایک ہی بند راستہ کب تک
آدمی آدمی کا دشمن ہے
جانے ہو مہرباں خدا کب تک
بے سبب پھر رہے ہیں مدت سے
کیجیے وقت کا گلا کب تک
کام اپنا ہریؔ پرستش ہے
بے اثر پھر رہے دعا کب تک

غزل
زندگی اب رہے خطا کب تک
ہری مہتہ