زندگی آئینہ ہے آئینہ آرائی ہے
اجنبی بھی ہے وہی جس سے شناسائی ہے
سنگ دل سامنے آتا ہے تو یہ سوچتا ہوں
آرزو حسن کی دیوار سے ٹکرائی ہے
آج کی رات بھی کرتا ہے کوئی کفر کی بات
چاند کے پھول میں شبنم کی شراب آئی ہے
کس کو اس دور میں ہے فرصت عشق خوباں
آگ تیرے لب و رخسار نے برسائی ہے
تو نہیں ہے تو ہر اک جرعۂ مہتاب صفت
یاد کی آنکھ سے ٹپکی ہوئی تنہائی ہے
دل وہ صحرا ہے جہاں حسرت سایہ بھی نہیں
دل وہ دنیا ہے جہاں رنگ ہے رعنائی ہے
غزل
زندگی آئینہ ہے آئینہ آرائی ہے
عطا شاد