زندہ رہنے کا بھرم آ کے کہاں پر ٹوٹا
اک ستارہ سا مری شہ رگ جاں پر ٹوٹا
غیرممکن ہے مری خاک اڑاتا کوئی
میں کہ خود اپنی تباہی کے نشاں پر ٹوٹا
سود در سود مروت مری کام آئی ہے
جب میں اخلاص کی میزان زیاں پر ٹوٹا
زہر سا پھیل چکا ہے مری شریانوں میں
کون سا حرف مری نوک زباں پر ٹوٹا
سسکیاں بھر کے شررؔ کون وہاں روتا تھا
خیمۂ خواب سر شام جہاں پر ٹوٹا
غزل
زندہ رہنے کا بھرم آ کے کہاں پر ٹوٹا
کلیم حیدر شرر