زیست کا حاصل بنایا دل جو گویا کچھ نہ تھا
غم نے دل کو دل بنایا ورنہ کیا تھا کچھ نہ تھا
وہ تو میرے سامنے تھے دیکھنے کی دیر تھی
میں نے آنکھیں بند کر لیں ورنہ پردا کچھ نہ تھا
یا الم کوشی رہی یا خود فراموشی رہی
دل کسی دن دل نہ تھا یا درد تھا یا کچھ نہ تھا
کچھ سمجھ کر خود ہی ہم نے جان دے دی دل کے ساتھ
ان کی نظروں کا ابھی ایسا تقاضا کچھ نہ تھا
آپ کا دیوانہ تھا یہ ادعا باطل سہی
فانیؔ دیوانہ دیوانہ بھی تھا یا کچھ نہ تھا
غزل
زیست کا حاصل بنایا دل جو گویا کچھ نہ تھا
فانی بدایونی