EN हिंदी
ذہن پریشاں ہو جاتا ہے اور بھی کچھ تنہائی میں | شیح شیری
zehn pareshan ho jata hai aur bhi kuchh tanhai mein

غزل

ذہن پریشاں ہو جاتا ہے اور بھی کچھ تنہائی میں

زبیر امروہوی

;

ذہن پریشاں ہو جاتا ہے اور بھی کچھ تنہائی میں
تازہ ہو جاتی ہیں چوٹیں سب جیسے پروائی میں

اس کو تو جانا تھا لیکن میرا کیوں یہ حال ہوا
انگنائی سے کمرے میں اور کمرے سے انگنائی میں

اس کے دل کا بھید اسی کی آنکھوں سے مل سکتا تھا
کس میں ہمت ہے جو اترے جھیلوں کی گہرائی میں

ایک ہی گھر کے رہنے والے ایک ہی آنگن ایک ہی دوار
جانے کیوں بڑھتی جاتی ہے نفرت بھائی بھائی میں

نور بصیرت کا بخشا کل تک میں نے جن کو زبیرؔ
فرق نظر آتا ہے ان کو اب میری بینائی میں