EN हिंदी
ذہن میں کچھ قیاس رہتا ہے | شیح شیری
zehn mein kuchh qayas rahta hai

غزل

ذہن میں کچھ قیاس رہتا ہے

صابر شاہ صابر

;

ذہن میں کچھ قیاس رہتا ہے
نصف خالی گلاس رہتا ہے

ہر طرف رنگ و نور ہے پھر بھی
شہر کیوں کر اداس رہتا ہے

مفلسی میں بھی ہاتھ پھیلائیں
کچھ تو عزت کا پاس رہتا ہے

امن کا قتل ہو گیا جب سے
شہر اب بد حواس رہتا ہے

تیز رفتار زندگانی میں
حادثہ آس پاس رہتا ہے

دور پتھر کا پھر سے لوٹ آیا
اب جہاں بے لباس رہتا ہے

ہم فقیروں کا طرز ہے صابرؔ
تن پہ سادہ لباس رہتا ہے