ذہن میں کون سے آسیب کا ڈر باندھ لیا
تم نے پوچھا بھی نہیں رخت سفر باندھ لیا
بے مکانی کی بھی تہذیب ہوا کرتی ہے
ان پرندوں نے بھی ایک ایک شجر باندھ لیا
راستے میں کہیں گر جائے تو مجبوری ہے
میں نے دامان دریدہ میں ہنر باندھ لیا
اپنے دامن پہ نظر کر مرے ہاتھوں پہ نہ جا
میں نے پتھراؤ کیا تو نے ثمر باندھ لیا
گھر کھلا چھوڑ کے چپکے سے نکل جاؤں گا
شام ہی سے سر و سامان سحر باندھ لیا
عمر بھر میں نے بھی ساحل کے قصیدے لکھے
میرے بچوں نے بھی اک ریت کا گھر باندھ لیا
ہار بے درد ہواؤں سے نہ مانی قیصرؔ
بادباں پھینک کے قدموں سے بھنور باندھ لیا
غزل
ذہن میں کون سے آسیب کا ڈر باندھ لیا
قیصر الجعفری