EN हिंदी
ذہن میں اور کوئی ڈر نہیں رہنے دیتا | شیح شیری
zehn mein aur koi Dar nahin rahne deta

غزل

ذہن میں اور کوئی ڈر نہیں رہنے دیتا

دوجیندر دوج

;

ذہن میں اور کوئی ڈر نہیں رہنے دیتا
شور اندر کا ہمیں گھر نہیں رہنے دیتا

کوئی خوددار بچا لے تو بچا لے ورنہ
پیٹ کاندھوں پہ کوئی سر نہیں رہنے دیتا

آسماں بھی وہ دکھاتا ہے پرندوں کو نئے
ہاں مگر ان پہ کوئی پر نہیں رہنے دیتا

خشک آنکھوں میں اتر آتا ہے بادل بن کر
درد احساس کو بنجر نہیں رہنے دیتا

ایک پورس بھی تو رہتا ہے ہمارے اندر
جو سکندر کو سکندر نہیں رہنے دیتا

ان میں اک ریت کے دریا سا ٹھہر جاتا ہے
خوف آنکھوں میں سمندر نہیں رہنے دیتا

حادثوں کا ہے دھندلکا سا دویجؔ آنکھوں میں
خوبصورت کوئی منظر نہیں رہنے دیتا