ذرا سی رات اور اتنا ثواب کافی ہے
مری نظر کو فقط تیرا خواب کافی ہے
میں چاہتی نہیں مجھ کو ورق ورق لکھ دے
سر ورق ہے جو اک انتساب کافی ہے
میں کیا کروں گی یہ اتنی کہانیاں لے کر
مرے لیے تو فقط اک کتاب کافی ہے
میں اپنی پیاس کو محسوس کر کے جیتی ہوں
سمندروں کی طلب کیا سراب کافی ہے
میں تجھ سے ملتی ہوں فرحتؔ تو خوف آتا ہے
کہ مجھ پہ تیرا پرانا حساب کافی ہے
نہیں ہیں لفظ میسر تو پھر تأثر بھیج
کسی بھی شکل میں ہو اک جواب کافی ہے
خیال یار کہاں ہے کوئی بتائے اسے
مرے لیے وہی خانہ خراب کافی ہے
غزل
ذرا سی رات اور اتنا ثواب کافی ہے
فرحت نادر رضوی