ذرا سا امکان کس قدر تھا
فضا میں ہیجان کس قدر تھا
میں کس قدر تھا قریب اس کے
وہ میری پہچان کس قدر تھا
لباس پر تھا ذرا سا اک داغ
بدن پریشان کس قدر تھا
یہی کہ اس سے کبھی نہ ٹوٹے
ہمیں کہ اک دھیان کس قدر تھا
نہ جانے کیا لوگ بچھڑے ہوں گے
وہ موڑ سنسان کس قدر تھا
وہ سارے غم کیا ہوئے خدایا
یہ دل کہ گنجان کس قدر تھا
بحال ہو جائیں پھر وہ رشتے
اسے بھی ارمان کس قدر تھا
بھٹک گئے کتنے لوگ بانیؔ
نئے کا رجحان کس قدر تھا
غزل
ذرا سا امکان کس قدر تھا
راجیندر منچندا بانی