ذرا غم زدوں کے بھی غم خوار رہنا
کریں ناز تو ناز بردار رہنا
فراخی و عسرت میں شادی و غم میں
بہرحال یاروں کے تم یار رہنا
سمجھ نردباں اپنی ناکامیوں کو
کہ ہے شرط ہمت طلب گار رہنا
کرو شکر ہے یہ عنایت خدا کی
بلاؤں میں اکثر گرفتار رہنا
اگر آدمی کو نہ ہو مشغلہ کچھ
بہشت بریں میں ہو دشوار رہنا
خبر بھی ہے آدم سے جنت چھٹی کیوں
خلاف جبلت تھا بے کار رہنا
سمجھتے ہیں شیروں کو بھی نرم چارہ
غزالان شہری سے ہشیار رہنا
غزل
ذرا غم زدوں کے بھی غم خوار رہنا
اسماعیلؔ میرٹھی