زمینیں جل رہیں ہیں اور شجر سیراب ہیں سارے
مناظر اس نگر کے کس قدر شاداب ہیں سارے
دھوئیں میں سانس لیتی ٹہنیوں پر چہچہاتے ہیں
پرندے مختلف رنگو کے جو نایاب ہیں سارے
کہیں سورج بھی قیدی ہے کسی تاریک زنداں میں
کہیں ذرہ بھی تاباں صورت مہتاب ہیں سارے
یہاں آسیب کی تحویل میں ہے نیند کی دیوی
یہاں کے لوگ خوابوں کے لیے بیتاب ہیں سارے
دلوں میں ایک دکھ سا ہے گھروں میں کچھ نہ ہونے کا
مہیا ساری بستی کو مگر اسباب ہیں سارے
غزل
زمینیں جل رہیں ہیں اور شجر سیراب ہیں سارے
معین نجمی