زمیں سے آگے بھلا جانا تھا کہاں میں نے
اٹھائے رکھا یوں ہی سر پہ آسماں میں نے
کسی کے ہجر میں شب سے کلام کرتے ہوئے
دیے کی لو کو بنایا تھا ہم زباں میں نے
شجر کو آگ کسی اور نے لگائی تھی
نہ جانے سانس میں کیوں بھر لیا دھواں میں نے
کبھی تو آئیں گے اس سمت سے گلاب و چراغ
یہ نہر یوں ہی نکالی نہیں یہاں میں نے
مری تو آنکھ مرا خواب ٹوٹنے سے کھلی
نہ جانے پاؤں دھرا نیند میں کہاں میں نے
غزل
زمیں سے آگے بھلا جانا تھا کہاں میں نے
افضل گوہر راؤ