زمیں کو کھینچ کے میں سوئے آسماں لے جاؤں
یہ دل کا درد ہے اس درد کو کہاں لے جاؤں
یہ دل عجیب سی اک کشمکش سے ہے دو چار
نتیجہ ایک سا ہوگا اسے جہاں لے جاؤں
یہاں تو گل بھی سماتے نہیں ان آنکھوں میں
بتا کہاں میں یہ چہرہ دھواں دھواں لے جاؤں
لکھا تو ہے مری بے خواب سی ان آنکھوں میں
میں اپنے آپ کو دنیا سے رائیگاں لے جاؤں
یہاں تک آ کے پلٹنا بھی میرے بس میں نہیں
میں کس ٹھکانے روشؔ اب یہ جسم و جاں لے جاؤں
غزل
زمیں کو کھینچ کے میں سوئے آسماں لے جاؤں
شمیم روش