زمانہ یاد رکھے گا تمہیں یہ کام کر جانا
کسی افسردہ چہرے میں خوشی کے رنگ بھر جانا
کسی بھی حادثے پر اس کی آنکھیں نم نہیں ہوتیں
اسی حالت کو کہتے ہیں میاں احساس مر جانا
اگر جانا ضروری ہے تو تھوڑا مسکرا بھی دے
مجھے اچھا نہیں لگتا ترا با چشم تر جانا
ابھی بھی وقت ہے باقی تڑپ پیدا کرو ورنہ
قیامت کی نشانی ہے دعاؤں سے اثر جانا
شہادت کی جبیں پر آج بھی روشن ہے وہ لمحہ
وہ ساعت جس میں تھا شبیر کا سجدے میں سر جانا
کئی آنکھوں کے دیپک منتظر ہیں دل کی راہوں میں
مری آوارگی لازم ہے میرا اب تو گھر جانا
انا کو بیچنا شایانؔ ذلت کی نشانی ہے
انا کو بیچنے سے تو کہیں بہتر ہے مر جانا

غزل
زمانہ یاد رکھے گا تمہیں یہ کام کر جانا
شایان قریشی