زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخم جگر سے
ہم خوب ہیں واقف ترے انداز کمر سے
یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے
پھر آئے اگر جیتے وہ کعبہ کے سفر سے
تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے
سرمایۂ امید ہے کیا پاس ہمارے
اک آہ ہے سینہ میں سو نامید اثر سے
وہ خلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں
ہیں شاخ ثمر دار میں گل پہلے ثمر سے
حاضر ہیں مرے جذبۂ وحشت کے جلو میں
باندھے ہوئے کہسار بھی دامن کو کمر سے
لبریز مئے صاف سے ہوں جام بلوریں
زمزم سے ہے مطلب نہ صفا سے نہ حجر سے
اشکوں میں بہے جاتے ہیں ہم سوئے در یار
مقصود رہ کعبہ ہے دریا کے سفر سے
فریاد ستم کش ہے وہ شمشیر کشیدہ
جس کا نہ رکے وار فلک کی بھی سپر سے
کھلتا نہیں دل بند ہی رہتا ہے ہمیشہ
کیا جانے کہ آ جائے ہے تو اس میں کدھر سے
اف گرمیٔ وحشت کہ مری ٹھوکروں ہی میں
پتھر ہیں پہاڑوں کے اڑے جاتے شرر سے
کچھ رحمت باری سے نہیں دور کہ ساقی
روئیں جو ذرا مست تو مے ابر سے برسے
میں کشتہ ہوں کس چشم سیہ مست کا یا رب
ٹپکے ہے جو مستی مری تربت کے شجر سے
نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا
کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے
اے ذوقؔ کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
غزل
زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے
شیخ ابراہیم ذوقؔ