EN हिंदी
زخم کھلے پڑتے ہیں دل کے موسم ہے یہ بہاروں کا | شیح شیری
zaKHm khule paDte hain dil ke mausam hai ye bahaaron ka

غزل

زخم کھلے پڑتے ہیں دل کے موسم ہے یہ بہاروں کا

سجاد باقر رضوی

;

زخم کھلے پڑتے ہیں دل کے موسم ہے یہ بہاروں کا
لالہ و گل کی بات نکالو ذکر کرو انگاروں کا

ہم دکھیارے ان کے سہارے چار قدم ہی چل لیں گے
چاند کا آخر ہم کیا لیں گے کیا بگڑے گا تاروں کا

ایک تبسم اک نگہ خاموش تکلم وہ بھی نہیں
کیا ہوگا جینے کا سہارا ہم سے دل افگاروں کا

ہم تو ٹھہرے غم کے مارے جینے کو جی ہی لیں گے
کیا ہوگا در چشم سبو بر دوش چمن برداروں کا

دل ہے لذت غم کا خوگر سنتے ہی چونک اٹھتا ہے
ذکر کوئی جب چھڑ جاتا ہے ان نازک تلواروں کا

جشن طرب کے عنواں کتنے پھیلے کتنے عام ہوئے
تم ہی کہو کچھ اپنی بیتی قصہ درد کے ماروں کا

طوفانی ہے غم کی کہانی پھر وہ کہاں موضوع غزل
بات بنات النعش کی چھیڑو ذکر کرو مہ پاروں کا