زخم فرقت کو تری یاد نے بھرنے نہ دیا
غم تنہائی مگر رخ پہ ابھرنے نہ دیا
آج بھی نقش ہیں دل پر تری آہٹ کے نشاں
ہم نے اس راہ سے اوروں کو گزرنے نہ دیا
تو نے جس روز سے چھوڑا اسے خالی رکھا
میں نے خوشیوں کو بھی اس دل میں ٹھہرنے نہ دیا
ربط جو تجھ سے بنایا سو بنائے رکھا
تو ہی کیا تیرا تصور بھی بکھرنے نہ دیا
ضبط اتنا کہ چراغوں سے ہوئے محو کلام
یاد اتنی کہ تجھے دل سے اترنے نہ دیا
آئنے توڑ دئے جو بھی نظر سے گزرے
کسی مہ رو کو ترے بعد سنورنے نہ دیا
غزل
زخم فرقت کو تری یاد نے بھرنے نہ دیا
اشہد بلال ابن چمن