زخم دیکھے نہ مرے زخم کی شدت دیکھے
دیکھنے والا مری آنکھوں کی حیرت دیکھے
مجھ پہ آساں ہے کہے لفظ کا ایفا کرنا
اس کو مشکل ہے تو وہ اپنی سہولت دیکھے
دل لئے جاتا ہے پھر کوئے ملامت کی طرف
آنکھ کو چاہئے پھر خواب ہزیمت دیکھے
کوئی صورت ہو کہ انکار سے پہلے آ کر
کس قدر اس کی یہاں پر ہے ضرورت دیکھے
دل تذبذب میں ہی رہتا ہے بوقت پیماں
لفظ دیکھے کہ رخ یار کی رنگت دیکھے
آنکھ بھر جاتی ہے اس کثرت نظارہ سے
دل تو ہر شکل میں بس ایک شباہت دیکھے
غزل
زخم دیکھے نہ مرے زخم کی شدت دیکھے
اکرم محمود