زہر کی چٹکی ہی مل جائے برائے درد دل
کچھ نہ کچھ تو چاہئے بابا دوائے درد دل
رات کو آرام سے ہوں میں نہ دن کو چین سے
ہائے ہائے وحشت دل ہائے ہائے درد دل
درد دل نے تو ہمیں بے حال کر کے رکھ دیا
کاش کوئی اور غم ہوتا بجائے درد دل
اس نے ہم سے خیریت پوچھی تو ہم چپ ہو گئے
کوئی لفظوں میں بھلا کیسے بتائے درد دل
دو بلائیں آج کل اپنی شریک حال ہیں
اک بلائے درد دنیا اک بلائے درد دل
زندگی میں ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں شعورؔ
آشنائے درد دل نا آشنائے درد دل
غزل
زہر کی چٹکی ہی مل جائے برائے درد دل
انور شعور