ضبط کی کوشش ہے جان ناتواں مشکل میں ہے
کیوں عیاں ہو آنکھ سے وہ غم جو پنہاں دل میں ہے
جس سے چاہو پوچھ لو تم میرے سوز دل کا حال
شمع بھی محفل میں ہے پروانہ بھی محفل میں ہے
عشق غارت گر نے شہہ دی حسن آفت خیز کو
شوق بسمل ہی سے کس بل بازوئے قاتل میں ہے
کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے
خود تجھے آ جائے گا عاشق نوازی کا خیال
تیرا رہرو کیوں خیال دوریٔ منزل میں ہے
مدعائے عشق میرا کچھ نہیں جز ذوق عشق
حسن کو حیرت کہ یہ کس سعیٔ بے حاصل میں ہے
اپنی شان بے نیازی پر تمہیں کیا کیا ہیں ناز
کاش تم اس شوق کو جانو جو میرے دل میں ہے
غزل
ضبط کی کوشش ہے جان ناتواں مشکل میں ہے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی