ذات کی دیوار بیچوں بیچ اک در وا ہوا
آخری لمحوں میں گر ہو بھی گیا تو کیا ہوا
رقص میں مدہوش غوغائے سرود و لے میں گم
کون ہے یہ شدت آزار سے ہنستا ہوا
تیری میری آنکھ کی مٹی ہمیشہ نم رہے
ہو ابد سے بھی پرے رخصت کا پل پھیلا ہوا
بعد از یک ساعت خاموش ماتم ختم شد
کیوں کسی کے سوگ میں رکتا زماں چلتا ہوا
میرے شانوں پر ردائے آبروئے عشق ہے
بارش ناموس الفت میں ہے دل بھیگا ہوا
وہ رکا رک کر مڑا مڑ کر مری جانب جھکا
عمر کا دریا وہیں تھم سا گیا بہتا ہوا
میری پیشانی پہ دائیں ہاتھ کی انگشت سے
ایک خوش قامت نے اپنا نام ہے لکھا ہوا

غزل
ذات کی دیوار بیچوں بیچ اک در وا ہوا
سیماب ظفر