یوں زندگی کے معنی کسی نے بتا دیے
تم ریت پہ دو حرف لکھے اور مٹا دیے
کیسے کہوں کہ کتنا وہ کھل کر ملا ہے آج
شرم و حیا کے سارے پرندے اڑا دیے
دشمن سے ہار جیت کا ہونا تھا فیصلہ
تو واپسی کے ہم نے سفینے جلا دیے
تو بخش یا نہ بخش تجھے اختیار ہے
گزریں گے تیرے در سے نہ ہم بن صدا دیے
فاروقؔ ان سے کوئی شکایت نہیں رہی
آنکھیں ملیں تو دھیرے سے وہ مسکرا دیے

غزل
یوں زندگی کے معنی کسی نے بتا دیے
فاروق رحمان