EN हिंदी
یوں تو کہنے کو ہم عدو بھی نہیں | شیح شیری
yun to kahne ko hum adu bhi nahin

غزل

یوں تو کہنے کو ہم عدو بھی نہیں

نور جہاں ثروت

;

یوں تو کہنے کو ہم عدو بھی نہیں
ہاں مگر اس سے گفتگو بھی نہیں

وہ تو خوابوں کا شاہزادہ تھا
اب مگر اس کی جستجو بھی نہیں

وہ جو اک آئینہ سا لگتا ہے
سچ تو یہ ہے کہ روبرو بھی نہیں

ایک مدت میں یہ ہوا معلوم
میں وہاں ہوں جہاں کہ تو بھی نہیں

ایک بار اس سے مل تو لو ثروتؔ
ہے مگر اتنا تند خو بھی نہیں