یوں تو کہنے کو ہم عدو بھی نہیں
ہاں مگر اس سے گفتگو بھی نہیں
وہ تو خوابوں کا شاہزادہ تھا
اب مگر اس کی جستجو بھی نہیں
وہ جو اک آئینہ سا لگتا ہے
سچ تو یہ ہے کہ روبرو بھی نہیں
ایک مدت میں یہ ہوا معلوم
میں وہاں ہوں جہاں کہ تو بھی نہیں
ایک بار اس سے مل تو لو ثروتؔ
ہے مگر اتنا تند خو بھی نہیں

غزل
یوں تو کہنے کو ہم عدو بھی نہیں
نور جہاں ثروت