EN हिंदी
یوں تو دیکھی ہیں مرے یار سبھی کی آنکھیں | شیح شیری
yun to dekhi hain mere yar sabhi ki aankhen

غزل

یوں تو دیکھی ہیں مرے یار سبھی کی آنکھیں

نعمان فاروق

;

یوں تو دیکھی ہیں مرے یار سبھی کی آنکھیں
اس کی آنکھوں سی کہاں اور کسی کی آنکھیں

وہ تو پربت کی بلندی کو بھلا بیٹھی ہے
گم ہیں یوں تیرے ابھاروں میں ندی کی آنکھیں

اس کی گردن کے سبھی طوق اتر جاتے ہیں
جس پہ اٹھ جاتی ہیں اک بار ولی کی آنکھیں

بس تری راہ میں لٹنے کو تلے بیٹھے ہیں
کسی لمحے کا بدن ہو کہ صدی کی آنکھیں

ہجر کا وقت بتاتی ہے ہمیشہ نعمانؔ
دیکھتا ہوں میں جو ہر بار گھڑی کی آنکھیں