EN हिंदी
یوں ترے مست سر راہ چلا کرتے ہیں | شیح شیری
yun tere mast sar-e-rah chala karte hain

غزل

یوں ترے مست سر راہ چلا کرتے ہیں

شمیم کرہانی

;

یوں ترے مست سر راہ چلا کرتے ہیں
جیسے شاہان فلک جاہ چلا کرتے ہیں

غم دنیا غم جاناں غم منزل غم راہ
کتنے غم زیست کے ہم راہ چلا کرتے ہیں

دل بھی کیا راہ گزر ہے کہ ہمیشہ جس میں
زہرہ و مشتری و ماہ چلا کرتے ہیں

یہ تو رندوں کی گلی ہے ادھر اے شیخ کہاں
ایسی راہوں میں تو گمراہ چلا کرتے ہیں

غم دوراں کی کڑی دھوپ میں چلنے والے
بہ تمنائے شب ماہ چلا کرتے ہیں

ہم کو چلنا ہے جو گلشن میں تو اس طرح چلیں
جیسے گلشن کے ہوا خواہ چلا کرتے ہیں

یاد ماضی غم امروز امید فردا
کتنے سائے مرے ہم راہ چلا کرتے ہیں

وادئ دل ہے قدم سوچ کے رکھنا کہ شمیمؔ
تیز اس راہ میں ناگاہ چلا کرتے ہیں